Vocab Vibe

ریاست جموں کشمیر کی تقسیم

شئیر کریں
شئیر کریں
شئیر کریں
شئیر کریں
ریاست جموں کشمیر
سائرس خلیل

ریاست جموں کشمیر 84471 مربع میل پر محیط ریاست ہے جو کہ معاہدہ امرتسر کہ بعد معروض وجود میں آئی۔ ریاست کثیرالقومی و مذہبی ریاست ہے جو کہ حاکم طبقہ کی غداری اور غلط حکمت عملی کی بنیاد پر منقسم ہو کر آج متنازعہ علاقہ بن کر رہ گئی ہے۔ ستر سال سے ریاست کہ باشندگان اپنی مسخ شدہ شناخت کہ ساتھ زندگیاں گزار رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کہ باعث اہل ریاست ہندوستان و پاکستان کا عارضی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کا استعمال کرتے ہیں۔
ریاست جموں کشمیر کا تاریخی پس منظر انتہائی خوشگوار رہا ہے۔ اہل ریاست جاگیردارانہ عہد سے سرمایہدارانہ عہد کی طرف سفر کر رہے تھے۔ عوام جدوجہد سے بادشاہی رویوں کی نفی کرکہ جمہوریت کی طرف بڑھ رہے تھے کہ اتنے میں چند اشرافیوں کہ عوض ریاست کے اندورونی حاکم طبقہ کہ مفادات کہ ٹکرانے کہ باعث چند لوگوں نے تاریخ کی ارتقائی منازل تہہ کرتی ہوئی ریاست کو تقسیم کر کہ جمود کا شکار کر دیا۔
ریاست میں شیخ عبداللہ کی قیادت میں عوام نے مسلم کانفرنس کا قیام عمل میں لایا ، بعد میں احساس ہوا کہ ریاست میں33 ٪ غیر مسلم بھی موجود ہیں۔ جس کو سدھارنے کہ لیئے شیخ عبداللہ اور ان کہ ساتھیوں نے مسلم کانفرنس کا نام بدل کر نیشنل کانفرنس رکھ دیا اور یوں سیاسی سفر جاری رکھا مگر اچانک ہی چند لوگ پہلی مسلم کانفرنس میں سے نمودار ہوئے مسلم لیگ طرز ریاست کا سیٹ اپ چلانے کہ لیئے مسلم کانفرنس کو دوبارہ آن کر دیا۔ یوں ریاست میں دو سیاسی جماعتیں کام کرنے لگی بلکہ باقائدہ الیکشن کا حصہ بھی رہیں اور اقتدار میں بھی رہیں۔ مسلم کانفرنس جزوی طور پر اختیارات کی مالک رہی مگر کلی طور پر حاکم مہاراجہ ہی تھا۔
اسی دوران برطانیہ کو دوسری جنگ عظیم میں کافی نقصان کا سامنا اٹھانا پڑا برطانیہ کو اپنی طاقت کا توازن کھونا پڑا اور وہ برصغیر کو 3 جون 1948 کا منصوبہ بنا کر چھوڑنے پر تیار ہو گیا۔
چونکہ معاہدہ امرتسر کہ تحت ریاست تاج برطانیہ کہ ماتحت تھی اور 3 جون کے منصوبہ کہ تحت ریاستوں کے حاکموں کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ کسی ایک ملک یعنی ہندوستان یا پاکستان کہ ساتھ الحاق کرئیں یا پھر الگ اپنی حیثیت سے اپنی شناخت کہ تحت رہ لیں۔
ریاست جموں کشمیر کہ حاکم ہری سنگھ نے اسی سلسلے میں ہندوستان اور پاکستان کہ رہنماؤں سے "جوں کا توں ایگریمنٹ” Stand Still Aggrement سائن کر لیا تھا ۔ جس کا مقصد ریاست کی الگ خودمختار حیثیت کو برقرار رکھنا تھا۔
اسی دوران ریاست کی سیاسی جماعتوں نے بھی اپنا اپنا خودمختاری کا فیصلہ سنا دیا تھا۔ 17 جولائی 1947 کو مسلم کانفرنس کی سی سی نے خودمختاری کا اعلان کرکہ مہاراجہ کا ساتھ دینا کا اعلان کیا۔ جبکہ 19 جولائی کی رات کو ابراہیم خان نے بیرونی سازش کو تقویت بخشنے اور اپنے جزوی اختیار کو کلی اختیار میں تبدیل کرنے کہ لیئے اپنے گھر مسلم کانفرنس کی میٹنگ کال کی۔ جسکا اس وقت کی مسلم کانفرنس کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ ابراہیم خان اور اسکے باقی ساتھیوں نے 19 جولائی کی رات الحاق پاکستان کی قرار دار منظور کی۔ جوکہ بعد میں معلوم پڑا کہ وہ قرارداد لاہور سے ٹائپ ہوئی۔
خیر بیرونی سازش اور حاکم طبقے کے اختیارات کے ٹکراؤ میں 4 اکتوبر کو یہی لوگ انقلابی حکومت کا اعلان کرتے ہیں۔ جسکہ نتیجہ میں ابراہیم خان کو وزیراعظم بنایا جاتا ہے اور کسی نامعلوم شخص کو صدر کا عہدہ دیا جاتا ہے۔ جسکا نام تو مسٹر انور رکھ دیا جاتا ہے مگر تاریخ کے پنے اسکو ڈھونڈنے سے قاصر ہیں۔ اور یوں یہ مفاداتی ٹولے ریاست کی تقسیم کی بنیاد بنتے ہیں۔
یہی لوگ 20 اکتوبر کو پاکستان سے مدد مانگتے ہیں۔ اور 22 اکتوبر کو 20 ہزار سے زائد قبائلی ریاست میں داخل ہوتے ہیں۔لوگوں کی اپنی تحریک جو کہ مہاراجہ کی حاکمیت کہ خلاف اور عوام کی حاکمیت کی حامی تحریک کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم کرکہ سادہ لوگوں کو ورغلایا جاتا ہے۔ جس کے نتیجہ میں ریاستی افواج اور قبائلیوں میں لڑائی ہوتی ہے۔ مہاراجہ ریاست کہ دوسرے دارالحکومت منتقل ہوجاتا ہے۔ قبائلی لوگوں نے ریاست میں خوب لوٹ کھسوٹ کا راج اپنائے رکھا۔اپنے پرانے ساتھیوں کو 24 اکتوبر والے دن صدر و دیگر عہدے دے کر آزاد کشمیر کے نام سے ایک غلام خطہ بنا کر دے دیا جاتا ہے۔قبائلی بدلے میں پانچ دن چار ہزار مربع میل میں گھومتے پھرتے عورتوں کا ریپ کرتے رہے اور جو پسند آئی اس کو ساتھ لے کر چلے گئے۔ عوام کی تحریک اور لوگوں کی جان مال و شناخت کو بے دردی سے کچل دیا گیا۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے مہاراجہ نے بھارت سے 26 اکتوبر کو مدد کرنے کہ لیئے معاہدہ کیا۔ جس میں لکھا گیا تھا کہ بھارت اپنی افواج کو ریاست میں امداد کہ لیئے بھیجے، جب تک قبائلی(پاکستان فوج) واپس چلی نہیں جاتیں اور تب تک افواج وہی ٹھرئیں گئی۔ اس معاہدہ کو بنیاد بنا کر ہندوستان سرینگر ائیر پورٹ پر اپنی افواج بھیج دیتا ہے جس کو دیکھ کر قبائلی تو چار ہزار تک محدود رہتے ہیں مگر انڈین فوج چالیس ہزار مربع میل سے زائد علاقہ پر قبضہ کر لیتی ہے۔ مہاراجہ کا معاہدہ لے کر گاندھی اقوام متحدہ پہنچ جاتے ہیں۔ اقوام متحدہ اس معاہدہ کی بنیاد پر پاکستان کو جھوٹا قرار دیتی ہے اور پاکستان کو ریاست سے اپنی افواج واپس بلانے کا حکم دیتی ہے۔ اقوام متحدہ میں بیٹھ کر پاکستان کہ نمائندہ بات مان کر چلے آتے ہیں مگر اپنے ملک پہنچ کر جناب اپنے فیصلہ سے انکار کر دیتے ہیں۔
ادھر آزاد کشمیر کا کل اختیار مسلم کانفرنس کو دینے کا ڈھونگ رچایا جاتا اور ساتھ ہی ان سے گلگت بلتستان کا معاہدہ کرکہ گلگت بلتستان کو اپنا حصہ بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
دوسری طرف ہری سنگھ خاموشی سے اپنی زندگی کو آرام دہ ماحول میں گزارتا ہے جبکہ عوام اور ریاست اپنی بدقسمتی کو کوہستے ہیں۔ اکہتر سال گزرنے کہ بعد بھی ریاست کی تقسیم کی بنیاد پر ہزاروں مسائل نے جنم لے رکھا ہے۔ ریاستی وسائل کو بری طرح سے لوٹا جا رہا ہے۔ ہندوستان و پاکستان کہ حاکم طبقہ نے عوام اور ریاست دونوں کا بری طرح استحصال کیا۔ آج بھی عوام کی زندگی اکیسویں صدی سے میل نہیں کھاتی۔ عوام کھسم پرسی کی حالت میں لٹتے وسائل کا تماشہ دیکھ رہی ہے اور حاکم کل بھی موجیں کر رہا تھا اور آج بھی لطف اندوز ہو رہا ہے۔
19 جولائی کہ بعد 4 اکتوبر کی حکومت کہ تسلسل میں بننے والی 24 اکتوبر کی حکومت بھی ڈرامہ تھا اور وہی ڈرامہ آج بھی چل رہا ہے۔
جب تک ریاستی اکائیوں کو برابری کی بنیاد پر قومی دھارے میں نہیں لیا جاتا تب تک ظلم جبر و استحصال قائم رہے گا

سائرس خلیل

guest
0 Comments
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x
Scroll to Top