انسان ھونا آدمی ھونے سے بہتر رہتا ھے امید رکھنی چاہیے اور یہ امر واضح ھے کہ ھم بہت حد تک صحیح ھو کر بھی کہیں نہ کہیں غلط ھوتے ھیں یہ ھماری خامی بھی ھوتی ھے اور ھم سے ہر موڑ پر اچھاٸی ھونے کی توقع بھی کم ھوتی ھے بہر حال یہ ضروری نہیں کہ ھم سے غلط ھونے کےبعد صحیح ھونے کا موقع ضایع ھو جاتا ھے زندگی توازن میں رھے تو مقصد حیات پورا ھوتا رہتا ھے یہ ہر گز نہیں سوچنا چاہیے کہ اگر دس گناہ کے مقابلے میں دو نیکیاں بھی نہ کی جاھیں جو بھی اچھا کام کرنے کا موقع ملے اسے ہاتھ سے نہ جانے دیا جاے زندگی جینا آسان نہیں ھوتا اسے آسان بنایا جا سکتا ھے کسی کے درد کا مداوہ کر کے کسی کے کام آ کر کے کسی پر بوجھ نہ بن کر اور کسی کا بوجھ ہلکا کر کے خیر اور اچھاٸی کے کاموں میں تعاون اور شر کے خاتمے میں کمی لا کر قانون کا احترام کر کے مزہب کے اصولوں کو اپنا کر ھم زندگی کو سہل بنا سکتے راستہ کھٹن ضرور ھے مگر حوصلے سے یہ سفر طے کرنا پڑتا ھے خواب دیکھنا اور عملی لوازمات پورے کرنا دو مختلف مراحل ھیں صرف سب اچھا ھے کی سوچنا ھی کافی نہیں ھے شخصیت سے لے کر زندگی کے ہر گوشے کو تراشنا پڑتا ھے تب جا کر زندگی کے رنگ بدلنے لگتے ھیں بہت سے حدود و قیود میں قید زندگی کا سفر ھماری مرضی و منشا کے مطابق نہیں ھوتا ھم نہ چاہتے ھوے بھی بیماری و حادثے کا شکار ھو جاتے ھیں نہ گرنا کبھی کمال نہیں ھوتا گرنے کے بعد اٹھ کر جینے کی امنگ کمال ھوتا ھے آسایش سے آزمایش تک ہر موڑ زندگی کا لازمی جزو ھے ھمیں زندگی کی سمجھ بہت کچھ کھ جانے کے بعد آتی ھے بہت سارے خواب تعبیر کے مراحل میں بڑی مدت بعد آتے ھیں یوں ھم ہر چیز کو جلد حاصل کرنے کی لا حاصل کوشش بی کر لیں تو نتیجہ صفر ھوتا ھے خاہشوں اور ارمانوں کے درمیان لمبا وقفہ ھوتا ھے اور ھم پھر بھی جی رھے ھوتے یہ ھے وہ خاص فلسفہ ھم بہت سی چیزوں کو حاصل کرنے میں نا کام رہتے ھیں بہت علاج کروانے کے بعد بھی مرض ختم نہیں ھوتا تب یہ گمان ھونے لگتا ھے کہ یہ خواہش کے پیسہ ہر درد کی دوا ھے غلط ثابت ھو جاتا ھے جس مال و زر کو حاصل کرنے کے لیے ھم جایز و ناجایز کی پروا نہیں کرتے وھی وبال بھی بن چکا کہیں لٹ جانے کا خوف تو کہیں جان کا خطرہ کہیں اولاد میں وراثت کا جھکڑا تو کہیں ویرانی کا راج تب ھمیں اوروں کی زندگی بہتر لگنے لگتی ھے اور مال و زر سے محروم کو امیروں کی زندگی اپنے سے بہتر لگتی ھے کہیں اولاد کے ہاتھوں تنگ والدین کو بغیر اولاد کے والدین پر سکون لگتنے لگتے ھیں تو اولاد سے محروم صاحب اولاد کو خوش قسمت سمجھنے لگتے کاروباری افراد ملازم پیشہ کو بہتر سمجھتے ھیں اور ملازم لوگ کاروباری افراد کو بہتر سمجھتے ھیں ھم میں سے ہر کوٸی خود سے دوسرے کو سہل سمجھ رہا ھوتا ھے جب کے اپنی اپنی جگہ ھم میں سے ہر ایک اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ھوتا ھے اتنا ھم سے کوٸی پوچھے کہ یہ بقا کی جنگ بہت تیزی سے کیوں لڑ رھے ھو تو ھم یو کہنے سے کترارتے ھیں کہ بقا کی جنگ ھم فنا ھونے کے لیے لڑ رھے بس یہی روش ھمیں مطمین نہیں ھونے دیتی کو زندگی سہل نہیں نہ سب کچھ یہاں ھمارے لیے ھوتا ھے بس ھماری ہر خواہش پر جو ہزاروں خواہشیں نکل آتی ھیں تو حساب لگایا جاے تو خواہشوں کے اس انبار کے لیے ھمیں پانچ سو سال در کار ھیں اور ھم سو سال بھی نہیں جییں گے یہی ھے زندگی کا وہ فانی فلسفہ تو کیا ھم کچھ بھی نہ کریں ایسا بھی نہیں ھے ھمارے کرنے کے جو کام ھیں وہ ھم ضرور کریں مگر ہر اس خواہش اور تردود کو زندگی کا لازمی جزو نہیں بنانا چاہیے جو ھم سمجھتے ھیں کہ یہ ناممکن ھے مثلا ھمارا بچہ اوسط زہانت رکھتا ھے ھم اسے ملک کا مشہور انجینر یا ڈاکٹر بنانے کا سوچ کر خود کو زہنی مریض نہیں بنانا چاہیے اسے وھی بننے دیا جاے جو اسکی صلاحیت ھے دنیا بھر کے خزانے سمیٹنے کے بجاے اپنی بساط کے مطابق لقمحہ حلال کو ترجیح دے کر رزق کی تگ و دو میں لگے رھیں اپنے ذمے حقوق کو ادا کریں بہت سی غلطیوں کے سر زد ھونے کے باوجود جہاں موقع ملے اچھاٸی کو کرنے کی کو شش ھم ضرور کریں خطاوں اور لغزشوں کے ساتھ ساتھ نیکیوں کا ذخیرہ بھی اکھٹا کرنا چاہیے یک طرف ھی ھمارا روحجان رھے تو زیر زبر کا فرق ھمارے لیے وبال جان بن جاتا ھے ضروریات کے لیے پیسہ چاہیے تو ہسنے کو دوست بھی چاہیے رشتوں میں جوڑ بھی چاہیے اور انسان جتنا بھی باغی ھو جاے آخر کار زندگی اسے تھکا کر ھی چھوڑتی ھے زندگی اپنا حاصل لیے بغیر نہیں رہتی دن بدلتے رہتے ھیں عروج سے زوال صحت سے بیماری تک میلوں سے تنہاٸی تک سہانے پل سے اداسی تک ہر رنگ رنگ زندگی ھے بس ضرورت ھے ہر موڑ پر ثابت قدمی کی یہی زیر زبر کا وہ فرق ھے جو بہت کچھ کھونے اور کھو کر پانے تک ھمیں سمجھ نہیں اتا اور غیر متوقع واقعات ھماری زندگی کو دل جو بھی بناتے ھیں اور دل سوز بھی یہی امتزاج ھے زندگی کا جس کا ہر صورت ھم نے سامنا کرنا ھوتا ھے
زیر زبر
شئیر کریں
شئیر کریں
شئیر کریں
شئیر کریں