دھڑکتی دھڑکن دل کی اور چلتی سانسوں میں ھم زندہ رہ کر نظام زندگی کو چلانے کی کوشش میں صبح سے شام اور شام سے صبح کر دیتے ھیں یوں دن گزرا پھر رات ھ گٸی رات گزری تو صبح کے سویرے دستک دیتے ھیں کارواں زندگی رواں رہتا ھے ھم بے خبر ھوتے ھیں کہ خبر ملتی ھے کسی کے مر جانے کی یہ مرنے والا انسان ھمارے تعلق سے جوڑا ھو یا نہ دونوں صورتوں میں غم و فسوں ھمارا دل پسیج کر رکھ دیتا ھے اموات مختلف انداز میں آے روز ھوتی ھیں مگر کچھ اموات تکلیف کا باعث شدت سے بنتی ھیں اسکی وجہ بے حسی لالچ و حسد ھے ایسے ھی ھم بھول جاتے ھیں کہ جس کو ھم موت کے گھاٹ اتارتے ھیں وہ خاندان کا کفیل ھوتا ھے اس سے پورے خاندان کی زندگی کی امیدیں جڑی ھوتی ھیں ھم اتنے ظالم لوگوں کے درمیان رہ رھے ھیں جن کے نذدیک انسانی جان کی کوٸی اھمیت نہیں ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ھے رب خود کہتا ھے جس نے ایک انسان کو بچایا گویا اس نے ساری انسانیت کو بچایا ھمارا خالق ھمیں محبت کا برداشت کا درس دیتا ھے ھم نہ جانے نفرت کہا سے سیکھ لیتے ھم ایک زندہ انسان کو چند لمحوں میں موت کے گھاٹ اتار کر اسے لاش کے روپ میں کیوں دیکھنے کو بے حس ھیں ایک گھر کے کفیل کو موت کی نیند سلا کر اس گھر کی رونقیں چھین لینا ایک حیوانی صفت کے حامل شخص کا ھی کردار ھو سکتا ھے ورنہ عقل و شعور رکھنے والا شخص کبھی بھی کسی کو مارنا تو در کنار تکلیف دینے کا بھی قایل نہیں ھوتا مضمون کی تمہید کی وجہ دو دن پہلے رات سات بجے موصول ھوٸی کال ھے میرے ایک دوست جو ایک تعلیمی ادارے کے مدیر ھیں فون کی گھنٹی بجی قاری شفاقت عثمانی صاحب کا نام دیکھ کر میں نے معمول کی کال سمجھ کر موصول کی سلام کے بعد انھوں نے ایک طالب علم محمد عثمان کے والد محترم کے قتل ھونے کی اطلاع دی شناساٸی بھی تھی خاندان والوں سے بڑا دکھ ھوا کی چند پیسوں کے لین دین جو ادا بھی ھو چکے ھیں شراکت دار نے گولیاں برسا کر محمد عثمان کے والد کو ابدی نیند سلا دیا کچھ دیر بعد ھم انکے گھر گے ایک کہرام تھا سوگ و غم میں دوبے ورثا اپنے باپ کو کھونے کے غم میں نڈھال تھے میں گہری سوچ میں ڈوب گیا کہ چند گھنٹے پہلے یہاں خوشیاں رقص کر رھی تھی ایک بے وقوف اور سنگدل شخص نے جہالت ک انتہا کر دی اور اب اس گھر میں غم ھے دکھ و قرب ھے باپ جیسی عظیم ہستی چھن جانے کا روگ ھے اور انسانیت سے گرے ھوے شخص نے انسانیت کو ھی تڑپا کر رکھ دیا تھا اب کیسے بے وقوفوں کو سمجھایا جاے کی کسی کی جان لینے کے بعد تمھیں کون سا تمغہ ملا ایک طرف ایک گھر کی خوشیاں چھن لی دوسرا اللہ کا مجرم بن گیا تیسرا خود پھانسی چڑ جاے گا اپنے گھر والوں کو بھی مشکل میں ڈال دیا تزلیل الگ سے ھوٸی سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ معاشرہ اتنا بے حس کیوں ھے کہ ھ کسی غلط کام کو کرنے سے پہلے اس کے انجام کو کیوں رد کرتے ھیں قانون کی گرفت سے مجرم کبھی نہیں بچ سکتے قانون اپنا راستہ خود بناتا ھے لا قانونیت سے نہ فرد ترقی کر سکتا ھے نہ معاشرہ یہی وجہ ھے کہ قانون کی گرفت مجرموں کو سزا دلوا کر دوسروں کے لیے عبرت بنتا ھے ظلم وجبر کا رعب اتنا نہیں جتنا قانون کے عمل درآمد پر ھے اس نا سور کو ختم کرنے میں اکیلا قانون کار آمد نہیں ھو سکتا کیوں کے قانون سزا جزا کا نام ھے اصلاح معاشرہ کے لیے ہر فرد کو اپنے حصے کد کردار ادا کرنا ھو گا پہلا فرض والدین کا ھے کہ وہ اپنے بچوں کو غلط وصحیح کی پہچان کروایں انسانیت کی اھمیت بتاھیں ھمدردی و محبت سیکھایں اساتذہ بچوں کی تربیت پر زیادہ توہ دیں نفرت سے دوری اور بھاٸی چارے کی طلب پیدا کریں معاشرے میں ایسے فورم ھوں جو تنازعات کا پر امن حل نکال سکیں مسایل و باھمی تنازعات کا حل گولی نہیں ھوتی دنیا بھر کے خزانے ایک انسانی جان سے زیادہ قیمتی نہیں ھیں یہ مال و ذر کے لیے کسی انسانی جان کو قتل کرنا درندگی ھے ھمیں سوچنا ھو گا کی ھمارے اندر حسد و لالچ کا عنصر کن وجوہات کی بنا پر پروان چڑتا ھے ان غلط راستوں کو بند کرنا ھو گا جہاں سے ھم انسانی معراج سے نا آشناھو رھے معاشرہ بڑی تیزی سے جرایم کی آماجگا بنتا جا رہا ھے چوری کی وارداتوں سےلے کر نشہ آور اشیا کی خرید و فروخت تک دن بدن تیزی آ رہی ھے اس کی روک تھام کے لیے قانون کا ہی نہیں خود بھی کردار ادا کرنا ھو گا ھم یوں ھی سوے رھے تو یہ آگ پھیلے گی جس کو بجھانا اسان نہیں ھو گا ھم محمد عثمان و انکے خاندان کے غم میں برابر کے شریک ھیں اللہ پاک انکے والد محترم کی مغفرت کرے غم ذدہ خاندان کو صبر اور صبر پر آجر عظیم عطا کرے آمین
پر نم آنکھوں کے ٹوٹتے خواب
شئیر کریں
شئیر کریں
شئیر کریں
شئیر کریں