مارکس کہتا ہے کہ سرمایہ داری نظام میں تخلیقی عمل بجائے خود عمل کی بیگانگی اور بیگانگی کا عمل ہے۔ محنت کار کا اپنی محنت سے رشتہ بیگانگی کا رشتہ ہے۔
مارکس نے بیگانگی کی چار شکلیں متعین کی ہیں۔
۱- محنت کش کی اپنی محنت سے بیگانگی
۲- اپنی پیدا کی ہوئی چیزوں سے بیگانگی
۳- دوسرے انسانوں سے بیگانگی
۴- نوعی زندگی سے بیگانگی
۱- محنت کش کی اپنی محنت سے بیگانگی
محنت کش کے پاس اپنی بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے کا بس ایک ہی ذریعہ ہے کہ وہ اپنی قوتِ محنت کو کسی غیر کے ہاتھ فروخت کردیں۔ ایسی صورت میں بقولِ مارکس:
“ محنت، محنت کار کی ذات سے خارج شے ہوجاتی ہے۔ یعنی وہ اس کے بنیادی وجود کی ملکیت نہیں ہوتی بلکہ (سرمایہ دار کی ملکیت ہوتی ہے) لہذا وہ کام کے دوران اپنی ذات کا اقرار نہیں کرتا بلکہ اس کی نفی کرتا ہے۔ وہ آسودگی نہیں بلکہ اُداسی محسوس کرتا ہے۔ وہ اپنی جسمانی اور ذہنی توانائی کو آزادانہ فروغ نہیں دیتا بلکہ اپنے جسم کی تحقیر اور دماغ کا زیاں کرتا ہے۔ محنت کار کام سے فراغت پانے کے بعد اپنے آپے میں ہوتا ہے اور کام کے دوران اپنے آپے میں نہیں ہوتا ۔ وہ جتنی دیر کام نہیں کرتا چین سے رہتا ہے اور جب کام کرتا ہے تو بے آرامی محسوس کرتا ہے کیونکہ اس کی محنت اپنی مرضی سے نہیں ہوتی بلکہ جبری ہوتی ہے، مارے بندھے کی ہوتی ہے۔ اس محنت سے اس کی کسی احتیاج کی تسکین نہیں ہوتی بلکہ وہ فقط ذریعہ ہوتی ہے خارجی احتیاجوں کی تسکین کا۔ محنت کا اجنبی کردار اس بات سے بالکل واضح ہوجاتا ہے کہ اگر مجبوری نہ ہوتو پھر محنت کار محنت سے طاعون کی طرح دُور بھاگتا ہے۔ “
۲- اپنی پیدا کی ہوئی چیزوں سے بیگانگی
اگر محنت کار اور اس کی پیداوار کے رشتے کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ بیگانگی کا عنفریت یہاں بھی مسلط ہے ۔ مارکس کہتا ہے کہ جس رفتار سے پیداوار کی مقدار، حاکمیت اور حلقہ اثر میں اضافہ ہوتا ہے اُسی رفتار سے محنت کار کا افلاس بڑھتا ہے۔ جتنی زیادہ چیزیں وہ پیدا کرتا ہے اتنا ہی وہ بہ حیثیت بازاری جنس کے سستا ہوتا جاتا ہے۔عالم بشری کی ناقدری براہ راست اُسی نسبت سے بڑھتی ہے جس نسبت سے عالمِ اشیاء کی قدر میں اضافہ ہوتا ہے۔ زندگی سستی اور چیزیں مہنگی ہوتی جاتی ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ محنت کی پیداوار محنت کار کی حریف بن کر اُس کے سامنے آکھڑی ہوجاتی ہے۔ وہ اپنی پیدا کی ہوئی چیزوں کا غلام ہوجاتا ہے۔
محنت کار جتنی محنت صرف کرتا ہے اس کی تخلیق کردہ معروضی دنیا جتنی طاقت ور ہوتی جاتی ہے —اس کی باطنی دنیا —اتنی ہی منعکس اور قلاش ہوتی جاتی ہے۔ محنت کار پیداوار میں اپنی جان کھپا دیتا ہے لیکن یہ جان اس کی ملکیت نہیں رہ جاتی بلکہ پیداوار کی ملکیت بن جاتی ہے ۔ پیداوار جتنی بڑھتی جاتی ہے، محنت کار کی معروضی محرومی بھی اتنی ہی بڑھتی ہے، جو کچھ اس کی محنت کی پیداوار ہوتی ہے وہ خود نہیں ہوتا لہذا جتنی زیادہ پیداوار ہوتی ہے، اتنا ہی وہ کم ہوتا ہے۔”
صنعتی پیداوار میں اضافے سے محنت کار کی انفرادی شخصیت جتنی گھٹتی ہے۔ سرمائے کا غلبہ اور اقتدار اُتنا ہی بڑھتا ہے۔ محنت کار کو نہ تو پیداوار کی نوعیت متعین کرنے کا حق ہوتا ہے، اور نہ کام کے حالات، کام کرنے کی جگہ، پیداوار کی تقسیم کسی میں اس کا کوئی دخل نہیں ہوتا ہے۔ اس کو اپنی زندگی پیداوار کے تقاضوں کے سانچے میں ڈھالنی پڑتی ہے۔ اس کی زندگی کا فیصلہ پیداوار کرتی ہے، وہ پیداوار کا فیصلہ نہیں کرتا۔ پیداوار حاکم ہوتی ہے اور وہ محکوم ۔ پیداوار آقا ہوتی ہے اور وہ اس کا غُلام یعنی مُردے زندوں پر راج کرتے ہیں۔
۳- دوسرے انسانوں سے بیگانگی
سرمایہ داری نظام میں انسان اپنی ذات اور تخلیق ہی سے بیگانگی محسوس نہیں کرتا بلکہ دوسرے انسان بھی اس کے لئے غیر ہوجاتے ہیں۔ وہ لاکھوں کے ہجوم میں تنہائی کا شکار ہوتا ہے۔ اس نفسی نفسی کی تشریح کرتے ہوئے مارکس لکھتا ہے کہ:
“محنت کی پیداوار سے بیگانگی کا، حیاتی عمل اور نوعی زندگی سے بیگانگی کا ، براہ راست نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان دوسرے انسانوں سے بھی بیگانہ ہوجاتا ہے۔ انسان جب اپنا حریف ہوتا ہے تو وہ لامحالہ طور پر دوسرے انسانوں کا بھی حریف ہوتا ہے۔”
موجودہ معاشرے کی اساس باہمی تعاون کی بجائے مقابلے اور مسابقت پر ہے چنانچہ ہر طبقے اور ہر پیشے کا انسان مقابلے کے مرض میں مبتلا ہے اور دوسرے شخص کا اپنا حریف خیال کرتا ہے۔ زندگی کا واحد مقصد روزی، روزگار حاصل کرنا رہ گیا ہے۔ اس دوڑ میں دوسروں کوکہنی مارکر یا دھّکا دے کر آگے بڑھنے والے کو کامیاب انسان سمجھا جاتا ہے اور دوسروں کے حقوق و مفاد کو روند کر ترقی کی چوٹیوں پر پہنچنے والوں کی عزت ہوتی ہے۔ ایسے خود غرض ماحول میں انسان اگر تنہائی محسوس نہ کرے اور دوسرے لوگ اس کو اپنے حریف نظر نہ آئیں تو ہمیں حیرت ہوگی۔
۴- نوعی زندگی سے بیگانگی
موجودہ نظام میں بیگانگی ذات کا چوتھا شکار انسان کی نوعی زندگی ہے۔ تشخصِ ذات کے متذکرہ بالاتینوں مظاہر——— محنت کی بیگانگی، محنت کی پیداوار کی بیگانگی اور دوسرے انسانوں کی بیگانگی، ایسی ٹھوس حقیقتیں ہیں جو سب کو نظر آجاتی ہیں۔ خواہ اخبار اور ریڈیو کے ملازم ہو یا فیکٹریوں، مِلوں میں کام کرنے والے مزدور۔ البتہ نوعی زندگی سے بیگانگی اتنی آسانی سے دِکھائی نہیں دیتی۔ مارکس نوعی زندگی کے لئے——— Species کی اصطلاح استعمال کرتا ہے۔ اس سے مُراد نوع کے تمام طبعی میلانات اور داخلی صلاحتیں ہیں۔ مارکس کہتا ہے کہ ہر جانور کی تخلیقی زندگی بحیثیت نوع دوسرے جانوروں سے جُدا ہوتی ہے یہی تخلیقی زندگی اس کی نوعی زندگی ہوتی ہے اور ہر نوع کا کردار اس کے حیاتی عمل(Life Activity) پر منحصر ہوتا ہے۔ انسان کا نوعی کردار اس کا بااختیار آزاد اور شعوری عمل ہے اور یہی خصوصیت اس کو دوسرے جانوروں کی نوعی زندگی سے ممتاز کرتی ہے۔
جہانِ نو کی تعمیر یعنی نیچر کا تخلیقی استعمال انسان کے شعوری اور وجود کا اقرار ہے مگر محنت کی بیگانگی انسان کے شعوری حیاتی ومل یعنی نوعی زندگی کا سارا نظام درہم برہم کردیتی ہے۔ اس کا حیاتی عمل یعنی اس کی ہستی فقط اس کے وجود کا ذریعہ بن جاتی ہے اور اس کی نوعی زندگی دوسرے جانوروں کی نوعی کی سطح پر آجاتی ہے۔ وہ فقط جینے کے لئے پیدا کرتا ہے جو جانوروں کی نوعی خصوصیت ہے حالانکہ انسان کی نوعی زندگی کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو اُبھارنے کی کوشش کریں۔ یہ صلاحیتیں آزادی اور خودمختاری کے ماحول ہی میں پوری طرح بروئے کار آتی ہیں مگر سرمایہ داری نظام کے اندر انسان اپنا پابند اور مجبور ہوتا ہے کہ اس کی نوعی زندگی ٹھٹھرکررہ جاتی ہے۔
قِصّہ مختصر موجودہ سرمایہ داری نظام کے ہاتھوں بشر اپنی بشریت سے محروم ہوتا جارہا ہے۔ اس کی آزادی اور خودمختاری چِھن گئی ہے۔ اس کی تخلیقی صلاحیتیں غیروں کے خودغرضانہ مقاصد کے تابع ہوگئی ہیں۔ اُس کو دوسرے انسان، حتیٰ کہ اپنی ذات بھی غیر نظر آتی ہے۔ وہ مخصیلِ ذات کے عمل سے بیگانہ ہوگیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ انسان اس بیگانگی ذات اور اشیاء کی غلامی سے چھٹکارہ کیسے پائے۔ اُس کی انسانی معنویت اور بشری قدریں بحال کیسے ہو۔ مارکس جواب دیتا ہے کہ اس مرض کا مُداویٰ کمیونزم ہے۔