کسی دانشور نے خوب کہا کے جب تک سانس چلتی رہتی ہے امید باقی رہتی ہے زندگی کے رنگ مختلف ہوتے ہیں پل بھر میں سبھی خواب پورے ہو جاتے ہیں تو پل بھر میں خوابوں کی مالا ٹوٹ کر یوں بکھر جاتی ہے کے سمیٹتے ہوے عرصہ بیت جاتاہے ہم سب سوچ لیتے مگر حقیقت کا ادراک نہیں کرتے بہت سی مشکلات ہماری اپنی پیدا کردہ ہوتی ہیں بہت سی جگہ ھم خود غلط ھوتے ھیں ھم زندگی اور زندگی سے جڑے ہر پل سے مخلص نہیں ھوتے زندگی سے جو لوگ مخلص ھوتے ھیں وھی نایاب ھوتے ھیں پوری تعمیر و ترقی ن لوگوں کی مرہون منت ھوتی ھے جو زندگی کے ہر گوشے سے مخلص ھوتے ھیں زندگی کا ہر گوشہ ھے کیا آج اسے موضوع بحث بناے کا مقصد یہی ھے کہ ھم کیسے خود کی تباھی کے زمہ دار ھیں ھم جہاں بھی مخلص ھوتے ھیں ھمیں بہتر نتایج ملتے ھیں جہاں ھم مخلص نہیں ھوتے وہاں نتایج بھی مختلف ملتے ھیں مثلا ھم اولاد سے مخلص ھوں گے تو انہیں پوری توجہ دیں گے تعلیم سے تربیت تک ان کی نگرانی کریں گے مگر اولاد مخلص نہیں ھو گی تو اکیلے والدین اولاد کی کامیابی نہیں دیکھ سکھیں گے گویا مخلص ھونے کی طاقت کا عنصر زیادہ موثر تب ھی ھو سکتا جب دونوں طرف سے اس طاقت کا استعمال ھو گا ایسے ھی اگر زندگی کی چلتی سانسیں ھمیں کسی گرداب میں دھکیل دیں تو وہا عزم و ھمت سے مقابلہ کرنا مخلص ھونے کی علامت ھے اگر ھم پریشانی سے ھمت ہار جاھیں گے تو رھی سہی ھمت جواب دے جاے گی یوں ھم مزید پھنس جاھیں گے ھم زندگی پر غور نہیں کریں گے اھے برے کی تمیز نہیں رکھیں گے کیا بہتر ھے سوچ بچار نہیں کریں گے صحت و ایمان حقوق و فرایض کی پہچان اپنی زمہ داروں کا احساس نہیں کریں گے تو گویا ھم زندگی سے مخلص نہیں ایسی خود غرضی کا انجام ناکامی مایوسی بے سکونی کی بڑی وجہ بن کر ھماری زنگی کی چلتی سانسوں کو مزید گھٹن زدہ کر دے گی اس کے زمہ دار ھم ھی ھوں گے کے کیوں کے ھم نے حالات کی نزاکت کو سمجھنے کی کوشش ھی نہیں کی زندگی کے ہر گوشے میں ھماری روز مرہ کے سارے معاملات شامل ھیں ایک جامع حکمت عملی بنانا مخلص ھونے کی علامت ھے اس کا مطلب یہ نہیں کے ھم بس زات کے قیدی بن جاھیں بلکے زندگی کے ساتھ جڑے لوگوں سے بھی مخلص ھونا پڑے گا ان کے درد کو اپنا درد سمھنا انکی مشکلات کو کم کرنا ساتھ نبھانا مخلص ھونے کی نشانی ھے ھم معاشرے کو نظر انداز کر کے خود غرض تو بن سکتے مگر مخلص نہیں جبکہ معاشرہ خود غرضی سے نہیں چلتا مخلص ھونے سے رنگ نکھرتا ھے زندگی چلتی سانسوں کا ھیں نام نہیں ھے زندگی ایک نظام کا نام ھے جہاں ھم زندہ رہ کر پھولوں ک مانند خوشبو بکھر سکتے جو شخص مخلص نہیں وہ بوجھ ھے اگر مخلص ھوے بغیر گھر نہیں چل سکتا تو معاشرہ یا ملک کیسے چلے گا ایسے ھی مخلص ھونا اس لیے بھی ضروری ھے کہ ھم یوں ھی نہیں پیدا ھوے اس کا مقصد ھمیں نہ صرف پتا ھو بلکے مقصد کے حصول کے لیے کوشش بھی کریں بعد از مرگ پل پل کا حساب بھی چلتی سانسوں کے گوشے میں شامل ھے ھم انسان ھیں انسانیت ھے کیا اس پر بھی غور و فکر کرنا مخلص ھونے کی علامت ھے ھم صرف مال و زر کے پیچھے بھاگنے کے لیے پیدا نہیں ھوے نہ ھم بچے پیدا کرنے کیے پیدا ھوے رب کاینات نے ایک مقصد دے کر دنیا میں بھیجا ھے وہ مقصد اگر ھماری زندگی کی سانسوں میں شامل نہیں تو ھم ناکام ھو کر موت کے منہ میں جاھیں گے ظاہر ھے جو مخلص ھو گا وھی مقصد زندگی سمجھ کر چلتی سنسوں کے درمیان اپنے شب و روز گزارے گا جو مخلص نہیں ھو گا وہ بوجھل سانسوں کے ساتھ سفر زیست پورا کر کے ناکام لوٹ جاے گا ھم کتنے نادان ھیں کے ہر چیز کے متعلق سوچتے ھیں مگر مقصد حیات پر غورنہیں کرتے مخلص ھوے بفیر ھم کبھی کامیابی حاصل نہیں کر سکتے یہ کامیابی چاہیے دنیا کی ھو یا آخرت کی دونوں جہانوں کی کامیابی مخلص ھونے میں پوشیدہ ھے ورنہ سسک سک کر ھم بوجھل سی زندگی بسر کرنے بر مجبور ھو جاھیں گے ھم کسی کو الزام نہیں دے سکتے ھیں دوستوں سے رشتوں سے افراد معاشرہ سے دین و دنیا سے مخلص ھو کر چلنا چاہہے کسی کابھلا نہیں کر سکتے تو برا بھی نہ کریں یہ اک ڈرامہ ھے کے ھم ہر وقت حالات ک ھی رونا رہتے ھیں کوٸی بات نہیں کے وقتی کوٸتنگی ھے اللہ پاک قادر زات ھے آسانی بھی عطاکرتاھے رزق بھی دے رہا صحت بھی اسکی زندگی بھی اسکی عطا ھم اتنی نعمتوں اور رحمتوں کے با جود کون سارب کا شکر ادا کرتےھم اسکی دی ھوٸی نعمتوں سے دوسروں کو مستفید بھی نہیں کرتے بخل حسدخود غرضی لالچ کے ھم مریض ھیں کیوں کے ھم زندگی سے مخلص نہیں ورنہ مخلص جو ھو گا وہ سب کا بھلا سوچے گا برا نہیں دعا ھے اللہ پاک ھیں چلتی سانسوں کے ہر پل میں مخلص رکھے جہاں رہے مخلص رہیں زندگی بڑی خوبصورت ہے اگر ہم مقصد زندگی سمجہیں تو
چلتی سانسوں کے ساتھ مخلص رہیں
شئیر کریں
شئیر کریں
شئیر کریں
شئیر کریں