ملکی سیاست میں اسوقت اچانک ہل چل مچ گٸی جب مولانا نے ہنگامی و جارحانہ انداز میں پریس کانفرنس کی اس کے بعد سربرایز کی توقع ختم ھو گٸی میڈیا مولانا کی پریس کانفرنس کا شدت سے منتظر تھا کہ مولانا نے وہ سب کہہ دیا جسکی توقع بھی نہ تھی مولانا نے جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید کو عمران خان کی حکومت ختم کرنے کا ذمہ دار ٹھرایا اور اصل محرک پیپلز پارٹی کو قرار دیا مولانا فضل الرحمان نے واضح کیا کے تحریک انصاف اور انکے درمیان داماغوں کا مسلہ ھے جسموں کا نہیں صحافی نے سوال کیا اتحاد ھو سکتا ھے تو مولانا نے کہا کلمہ گو وہ بھی ھیں ھم بھی پھر اتحاد ھونا مشکل نہیں تحریک انصاف کی قیادت کو اس کا اندازہ نہیں تھا کہ مولانا کا رویہ لچک دار ھو گا ہنگامی ملاقاتوں کا سلسلہ چل پڑا اور عمران خان نے مولانا سے بات جیت کرنے کی رضا مندی ظاہر کی یاد رھے عمران خان نے پیپلز پارٹی کی خواہش اور اسرار کے باوجود بات کرنے سے انکار کر دیا عمران کسی بھی صورت نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کے ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں مگر مولانا کے ساتھ بیٹھنے اور چلنے کو تیار ھو گے جبکہ تحریک انصاف اور جمعیت علما اسلام کے درمیان سخت بیان بازی اور الزمات آے روز میڈیا اور جلسوں میں سننے کو ملتے ھیں دوسری طرف اسد قیصر اور شیر افضل مروت نے بھی تصدیق کی ھے کے مولانا سے بات جیت جاری ھے اس میں کو ٸی شک نہیں کے مولانا زیرک اور زہین سیاست دان ھونے کے علاوہ سٹریٹ پاور رکھنے والی شخصیت ھیں اس کے علاوہ مولانا عدم تشدد کے قایل ھیں اور سیاست کو مفاد عامہ کے دایرے میں رکھ کر چلنے کے عادی ھیں یہ کہنا کے وہ ہر حکومت کا حصہ رہنے کا ہنر جانتے ھیں غلط ھے کیوں کے مولانا کبھی بھی اس پوزیشن میں اسمبلی نہیں پہنچے کے وہ تنہا صوبے یا مرکز میں حکومت بنا سکیں انکی مجبوری ھوتی ھے جو سیٹیں جیتی ھوتی ھیو وہاں کی عوام کی مشکلات کم کرنے کے لیے مولانا کے پاس مخلوط حکومت بنانا مجبوری ھے لوگوں کی بھی توقعات ھوتی ھیں کہ انکے حلقوں میں تعمیر وترقی ھو مولانا نے اپنے حلقوں میں یونیورسٹیاں کالجز سکول سڑکیں ہسپتال بناے ھیں خاص کر سی پیک سے فایدہ پہنچانے کے لیے کام کیا جمہوری عمل کو مضبوط کرنے کے لیے مولانا نے فہم و فراست سے کام لیا یہ کہنا قبل از وقت ھو گا کہ مولانا اگے چل کر کیا حکمت عملی اپناہیں گے اس میں شک نہیں کہ مولانا کو حماس اور افغان حکومت سے تعلقات اور دوروں کے بعد امریکہ و یورپ کی نظریں جمی ھیں ایسے میں مولانا ملکی مفاد میں کسی افراتفری کو پیدا نہیں کرنا چاہتے یوں وہ مزید کسی نقصان سے بچنے کے لیے پوزیشن میں رہ کر اپنا واضح موقف وقت کے ساتھ ساتھ واضح کرتے رھیں گے مگر دوسری طرف پیپلز پارٹی اور ن لیگ کسی خاطر خواہ نتیجے پر پہنچتے نہیو دیکھاٸی دے رھے ایک کمزور مخلوط حکومت اگے چل کر کیا مضبوط اپوزیشن کے سامنے ٹگ پاے گی اس پر قبل از وقت راے دینا مشکل ھے پیپلز پارٹی کا اندز بیاں بتا رہا وہ ایندہ پانچ سال پر نظر رکھتے ھوے ن لیگ کو پنجاب میں بھی کمزور دیکھنا چاہتی ھے یہ کھچڑی نما حکومت منت سماجت سے ھی پانچ سالہ دورانیہ پورا کرنے کی سعی کرے گی یوں حکومت سے جاندار اور سخت فیصلوں کی توقع نہیں رہ سکتی ملکی معشیت بری طرح خراب ھوتی جا رھی قرضہ مزید درکار ھے اٸی ایم ایف سخت شرایط طے کر کے ھی قرض دے گا جو سب سے بڑا مرض ھے اس ملک کا ایندہ دو سال تک عوام کو ریلیف ملنے کی توقع نہیں تواناٸی بحران کی وجہ سے کاروباری سرگرمیاں مفلوج ھیں بجلی و گیس کی قیمتیں بڑھیں گی عوام کا وھی حال رہنا ھے عوامی حکومت کا خیال نکال لینا چاہیے فلحال یہی صورت حال جاری رھے گی سیاسی جماعتوں کو وسعی تر ملکی مفاد کی خاطر بہت سے قربانی دینی ھو گی تحفظات اپنی جگہ مگر کھنچا تانی اس سے زیادہ خطر ناک ھو گی اس کا نقصان عوام کو مہنگاٸی اور بے روزگاری کی صورت بھگتنا ھو گا یہ صورتحال اب کسی انجام بل خیر کی طرف ھونٸی چاہیے ہر جماعت کے پاس جو مینڈٹ ھے وہ عوام نے اپنی فلاح تعمیر و ترقی کے لیے دیا ھے سیاست دانوں کو اس پر سوچنے کی ضرورت ھے عوام کی حالت بہت خراب ھے وہ دو وقت کی روٹی کے لیے پریشان ھیں ایسے میں محاذ آراٸی نقصان دہ ھے فیصلے ایوانوں میں ھوں تو زیادہ بہتر ھے یوں ھی جمہوری طرز عمل بہتر ھو سکتا ھے ورنہ عوام کے پاس انقلاب ھی آخری حل ھو گا کیوں کے بھوک و ننگ سے تنگ معاشرہ اداب زندگی بھول جاتا ھے
مولانا کی پریس کانفرنس اور نئی سیاسی صف بندی
شئیر کریں
شئیر کریں
شئیر کریں
شئیر کریں