Vocab Vibe

بنیادی غلطی

شئیر کریں
شئیر کریں
شئیر کریں
شئیر کریں
بنیادی غلطی
سائرس خلیل

برصغیر کی تاریخ کر بغور مطالعہ کیا جائے تو معلوم پڑتا ہے کہ 1857کی جنگ کے بعد ہی برصغیر کی قوم میں قومیت کی تعریف کو بدلنے کی کوشش کی جانے لگی۔ اور آخر کار 1885 کو یہ سازش مکمل ہوئی اور مذہبیت اور قومیت کو ایک دوسرے میں ضم کر دیا گیا۔حالات نے اس تیزی سے خود کو بدلا کے 1947میں قومیت کی جگہ مذہب کی بنیاد پر برصغیر کی تقسیم کر دی گئی۔جو کہ ایک سازش کا نتیجہ تھا۔
ایک قوم مذہب کے نام پر کھڑی کر دی گئی حالانکہ مذہب کی بنیاد پر نہ تو اقوام کی بنیاد پڑی ہے اور نہ ہی اوطان قائم ہو سکے ہیں۔ تاریخ میں عجیب طرح کی قوم کی بنیاد رکھی گئی تھی جس پر اہلِ دانش فکر مند تھے اور دشمنان قہقہے لگا رہے تھے۔خیر قوم کی بنیاد بھی پڑگئی اور وطن بھی حاصل کرلیا گیا۔

تحریر کو جاری رکھنے سے پہلے ایک بات واضح کر دوں کہ قوم کی تعریف میں مذہب کا عنصر نہیں پایا جاتا۔ بلکہ قوم اور مذہب دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ مذہب آپ کی انفرادی زندگی کا حصہ ہے جبکہ قومیت کے دائرے میں آپ آکر ایک اجتماع کا حصہ بن جاتے ہو۔
اگر قوم کی صحیح تعریف کی جائے تو کچھ اِس طرح سے ہو گئی
‘قوم ایک تاریخی طور پر ایک مستحکم سماجی حلقہ ہے، جوکہ اپنی مشترک زبان،مشترک خطہ زمین،مشترک اقتصادی زندگی، مشترک ثقافت اور مشترک ذہنی خصوصیات رکھتی ہے۔’
قوم کی تعریف میں پائے جانے والے عناصر میں لفظ مشترک بار بار استعمال ہوا ہے جو مذہب سے اس کو یک دم سے الگ کر دیتا ہے۔ پھر سے کہوں گا مذہب انفرادی زندگی کا حصہ ہے، جیسے آپ داڑھی رکھو یا نہ رکھو یہ آپ کی ذاتی زندگی کا حصہ ہے، آپ عبادت کرو یا نہ کرو اس سے کسی کو نقصان یا فائدہ نہیں ہو گا،پر قومیت آپ کی اجتماعی زندگی کا حصہ ہے۔جیسے اگر ایک بندہ بےروزگار ہے یا با روزگار ہو تو اُس کا اثر پوری قوم پر پڑتا ہے،جیسے اگر کوئی ایک شحص مستحکم ہوتا ہے تو اس کا فائدہ پوری قوم کو ہوتا ہے، اور اگرکوئی چور ہے تو اس کا نقصان پوری قوم برداشت کرتی ہے، جبکہ مذہب کی نظر سے دیکھا جائے تو کوئی تہجد گزار ہو یا پوجا پاٹ کا عادی اس کا فائدہ اس کی اپنی روحانی تسکین کے لیے ہو گا، اس کا فائدہ یا نقصان قوم کے لیے نہیں ہو گا، کوئی تہجد پڑھے یا نہ پڑھے، کوئی پوجا پاٹ کرئے یا نہ کرئے اس سے کسی دوسرے کو کوئی غرض نہیں ہوتی۔
ویسے ایک بات غلط فہمی سے پردہ اٹھاتا چلوں کہ ریاستوں کے کوئی مذہب نہیں ہوا کرتے۔اگر ایسا ہوتا تو ہمارے پیارے نبی پاکﷺ بھی ریاست کا مذہب بنا کر بتا دیتے۔ پر ایسا نہیں ہوا اور نبی پاکﷺ نے ایک فلاحی ریاست کا قیام عمل میں لایا۔ جس کا کوئی نام اسلامی جمہوریہ سعودیہ نہیں رکھا بلکہ "دولتِ عربیہ” کے نام سے ریاست کی بنیاد رکھی۔ جو کہ یہودیوں سے ایک معاہدے کے بعد عمل میں لائی گئی۔ دنیا میں دو ہی ریاستیں مذہب کے نام پر وجود میں آئی ہیں ایک اسرائیل اور دوسرا پاکستان جو کہ دونوں آج دنیا کہ امن کہ لیئے خطرہ بنی بیٹھی ہیں۔ ایک اور بات غور طلب ہے دونوں ریاستوں کو بنانے میں برطانیہ کا بڑا ہاتھ ہے جو کہ اج بھی اپنا مفاد حاصل کر رہا ہے۔ ۔ دونوں ملکوں کے دانشور طبقے کو اس بنیادی مسئلے کا حل نکالنا چاہیے ورنہ یہ نسل تو مذہبی انتہا پسندی کی نظر ہو چکی ہے کم از کم آنے والی نسلوں کو تو بچا لیں۔ورنہ سوائے افسوس کے سوائے ہاتھ کچھ نہ آئے گا۔

سائرس خلیل

guest
0 Comments
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x
Scroll to Top